غزل - ۱۵

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں ہونا

جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

عیدِ نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

تو ہو اور آپ بہ صد رنگ گلستاں ہونا

لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

 گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی

واے دیوانگیٴ شوق کہ ہر دم مجھ کو

جلوہٴ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے

عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ

لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط

عشرتِ پارہٴ دل، زخمِ تمنا کھانا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب!

جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

* * * *