غزل - ۱۹

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟

شکایتہائے رنگیں کا گلا کیا

تغافلہائے تمکیں آزما کیا

ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

تغافلہائے ساقی کا گلا کیا

غمِ آوارگیہائے صبا کیا

ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

شہیدانِ نگہ کا خونبہا کیا

شکستِ قیمتِ دل کی صدا کیا

شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا

یہ کافر فتنہٴ طاقت ربا کیا؟

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا

تجاہل پیشگی سے مدعا کیا

نوازشہائے بے جا دیکھتا ہوں

نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں

فروغِ شعلہٴ خس یک نفس ہے

نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے

دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے

دلِ ہر قطرہ ہے سازِ ’انا البحر‘

محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ

سن اے غارتگرِ جنس وفا، سن

کیا کس نے جگرداری کا دعویٰ؟

یہ قاتل وعدہٴ صبر آزما کیوں؟

بلائے جاں ہے غالب اس کی ہر بات

عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!

* * * *